چراغ ہوتے ہوئے تیرگی قبول کی ہے
چراغ ہوتے ہوئے تیرگی قبول کی ہے
تمام عمر کی تعزیر ایک بھول کی ہے
خیال آیا ہے اب راستہ بدل لیں گے
ابھی تلک تو بہت زندگی فضول کی ہے
خدا کرے کہ یہ پودا زمیں کا ہو جائے
کہ آرزو مرے آنگن کو ایک پھول کی ہے
نہ جانے کون سا لمحہ مرے قرار کا ہے
نہ جانے کون سی ساعت ترے حصول کی ہے
نہ جانے کون سا چہرہ مری کتاب کا ہے
نہ جانے کون سی صورت ترے نزول کی ہے
جنہیں خیال ہو آنکھوں کا لوٹ جائیں وہ
اب اس کے بعد حکومت سفر میں دھول کی ہے
یہ شہرتیں ہمیں یوں ہی نہیں ملی ہیں شکیلؔ
غزل نے ہم سے بھی قیمت بہت وصول کی ہے
- کتاب : Dhoop Dariya (Pg. 60)
- Author : Shakeel Azmi
- مطبع : Arshia Publications (2016)
- اشاعت : 2016
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.