علاوہ جلوۂ معنی کے کل جہاں دیکھا
علاوہ جلوۂ معنی کے کل جہاں دیکھا
جو چیز دیکھنے کی تھی اسے کہاں دیکھا
چھپائے رکھا ہمیشہ نگاہ گلچیں سے
نہ دیکھنے کی طرح سوئے آشیاں دیکھا
یہ یاد ہے کہ ملاقات تو ہوئی تھی کہیں
مگر یہ یاد نہیں ہے تمہیں کہاں دیکھا
قفس میں نیند بھی کیسے فریب دیتی ہے
کھلی جو آنکھ تو گلشن نہ آشیاں دیکھا
زمیں کے ظلم بھی برداشت ہم نے ہنس کے کئے
ترا بھی دبدبہ اے جور آسماں دیکھا
ہزاروں زخم تھے انسانیت کی میت پر
تمام دامن فطرت کو خونچکاں دیکھا
جو لوگ حفظ زباں کی زبان دیتے تھے
تو قیصرؔ ان کو ہی غارت گر زباں دیکھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.