الم نصیب سہی کچھ تو مسکرا بھی سکو
الم نصیب سہی کچھ تو مسکرا بھی سکو
سحر کے نام پہ دیوار شب گرا بھی سکو
گئی رتوں کے گلابوں سی ہے مہک اس میں
پھر اس کو یاد کرو دل کو گدگدا بھی سکو
وہ اتنا زود فراموش ہے تو کیا ہوگا
ہزار عہد اگر یاد اسے دلا بھی سکو
یہ کیا لگاؤ کہ ہم راستے کا پتھر ہیں
یہ کیا گریز کہ تم پھر پلٹ کے آ بھی سکو
وہ دل فریب سہی کاش دل زدو تم بھی
جو کب کا بھول چکا ہے اسے بھلا بھی سکو
قبائے شب میں سلگتے ہیں زخم دن بھر کے
لہو کی آگ سے کچھ روشنی بڑھا بھی سکو
یہ مانا اک وہی قاتل ہے شہر میں سرمدؔ
کم از کم اس کی نظر سے نظر ملا بھی سکو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.