امیر شہر کے بن کر وزیر بیٹھے ہیں
امیر شہر کے بن کر وزیر بیٹھے ہیں
تو کیا وہ بیچ کے اپنا ضمیر بیٹھے ہیں
قلندروں کی یہ عظمت کرم خدا کا ہے
فقیر شہر کے در پر امیر بیٹھے ہیں
ہیں پتھروں سے پریشان مچھلیاں ساری
ندی کنارے جو بچے شریر بیٹھے ہیں
نگاہ ناز نے دل تیرا انتخاب کیا
ہدف بنائے کماں میں وہ تیر بیٹھے ہیں
فصیل عشق میں بے شک درار آئے گی
انا کی کھینچ کے دونوں لکیر بیٹھے ہیں
حسد کی آگ میں جلنے لگے رقیب تمام
جو روبرو مرے وہ بے نظیر بیٹھے ہیں
تری نگاہ نے چھیڑا کوئی فسانہ کیا
قلم کو توڑ کے جو سب دبیرؔ بیٹھے ہیں
رفیق وقت میں وہ صاحب خلوص کہاں
مفاد حرص و ہوس ہیں حقیر بیٹھے ہیں
ترے خلوص کو شادابؔ کیا وہ سمجھیں گے
جو ہو کے اپنی انا کے اسیر بیٹھے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.