اندیشوں کا زہر پیا ہے
اندیشوں کا زہر پیا ہے
مشکل سے جینا سیکھا ہے
وقت نے ایسا غم بخشا ہے
صحراؤں میں جی لگتا ہے
دامن دامن خون کے دھبے
آخر کس کا قتل ہوا ہے
آج کلب کے دروازے پر
چپراسی خاموش کھڑا ہے
دیوانوں کی بات نہ مانو
لیکن سن لینے میں کیا ہے
اب تو خود اپنے چہرے پر
غیروں کا دھوکا ہوتا ہے
دھیرے دھیرے جیسے کوئی
میرے وجود کو چاٹ رہا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.