اندھیر شب ہجر میں کیا کیا نہیں ہوتا
اندھیر شب ہجر میں کیا کیا نہیں ہوتا
کب حشر سر شام سے برپا نہیں ہوتا
بیمار محبت کبھی اچھا نہیں ہوتا
یہ درد وہ ہے جس کا مداوا نہیں ہوتا
ہو لاکھ حسیں حسن کا شہرا نہیں ہوتا
تم کو تو ذرا خوف خدا کا نہیں ہوتا
مقبول وہاں عشق کا سجدہ نہیں ہوتا
جس جا پہ ترا نقش کف پا نہیں ہوتا
یہ دل اسی قابل ہے اسے خوب جلاؤ
اس پر جو ستم ہوتا ہے بے جا نہیں ہوتا
اپنوں ہی سے ہوتی ہے شکایت بھی گلا بھی
الفت میں کسی غیر سے شکوہ نہیں ہوتا
آتا ہی سمجھ میں نہیں اقرار بھی ان کا
ہوتا ہے اس انداز سے گویا نہیں ہوتا
یہ بھی مری قسمت کہ زباں ایسی ملی ہے
جس سے کہ ادا حرف تمنا نہیں ہوتا
اے شیخ کھلے بندوں میں پینے میں مزہ ہے
یہ شغل چھپا کر پس پردہ نہیں ہوتا
آتا ہے مجھے دشت نظر جوش جنوں میں
حالانکہ وہ گھر ہوتا ہے صحرا نہیں ہوتا
بے غم ہیں ہر اک فکر سے رندان خرابات
ان کو کبھی اندیشۂ فردا نہیں ہوتا
یہ سختیاں ہر روز کی کیسے سہے کوئی
انسان کے پتھر کا کلیجا نہیں ہوتا
اب غم بھی مرے دل سے یہ کرتا ہے شکایت
اس خانہ ویراں میں گزارا نہیں ہوتا
اے شیخ یہ برکت ہے کہ پی جاتے ہیں لاکھوں
پھر بھی کبھی خالی خم صہبا نہیں ہوتا
وہ ہم بھی سنیں طور پہ جو تم نے سنا تھا
ہم سے تو یہی حضرت موسیٰ نہیں ہوتا
ظاہر میں چھپیں آئیں نگاہوں میں دلوں میں
توہین ہے پردے کے یہ پردا نہیں ہوتا
آ پڑتی ہے افتاد کچھ اس طرح کی ناصح
الفت میں کوئی شوق سے رسوا نہیں ہوتا
کہہ دو ذرا اغیار سے سنبھلے ہوئے آئیں
مقتل ہے یہاں کھیل تماشا نہیں ہوتا
تھے طالب دیدار تو سنبھلے ہوئے رہتے
موسیٰ کوئی یوں محو تجلی نہیں ہوتا
الفت میں مزا عشق میں لذت نہیں ملتی
جب تک کہ کوئی درد سراپا نہیں ہوتا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.