اندھیرے دن کی سفارت کو آئے ہیں اب کے
اندھیرے دن کی سفارت کو آئے ہیں اب کے
ہیں کتنی روشنیاں اشتہار میں شب کے
یہاں تو دیکھ لیے ہم نے حوصلے سب کے
ملے نہ دوست نہ دشمن ہی اپنے منصب کے
بس ایک بات پہ ناکامیوں نے گھیر لیا
زباں سے آئے لبوں تک نہ حرف مطلب کے
جو لب کشادہ تھے وہ مدعی بنے لیکن
جو دل کشادہ تھے وہ کام آ گئے سب کے
اک آہ خشک ہی اپنے نصیب میں نکلی
بہت ہی شور سنے جذبۂ لبالب کے
جدائیاں تو مقدر ہیں لیکن اک غم ہجر
عجیب پھول سے ساتھی بکھر گئے اب کے
بھٹک رہا ہے دیار خرد میں کیوں غم دل
گھروں کو لوٹ چکے سارے با وفا کب کے
زمین سخت میں لفظوں کے گل کھلائے ہیں
غزل کہی تو ہوئے قائل اپنے کرتب کے
ہزار اس نے بھی چکر دیے مگر باقرؔ
رہے نہ ہم بھی کبھی آسمان سے دب کے
- کتاب : Kulliyat-e-Baqir (Pg. 191)
- Author : Sajjad Baqir Rizvi
- مطبع : Sayyed Mohammad Ali Anjum Rizvi (2010)
- اشاعت : 2010
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.