اندھیرے کے آغوش میں وہ چھپا ہے
اندھیرے کے آغوش میں وہ چھپا ہے
اجالا سمے کا مہک تو رہا ہے
جو تکیہ ہو بھیگی سمجھ لو اشارے
بلکتے بلکتے کوئی سو گیا ہے
تباہی کے عالم میں ہنستا ستارا
کئی مشکلوں سے چہک کر ملا ہے
مقدس ہو سیرت بھلے چاہے جتنی
فریبی سی صورت کو سب کچھ روا ہے
نہ دامن پسارا نہ سر تھا جھکایا
نہ شکوہ کسی سے نہ کوئی گلہ ہے
سہی بات کہتے ہمیشہ ہیں ڈرتے
یہ سچ کا سفینہ افق سے گرا ہے
نہیں چاہیئے روشنی اب فلک کی
چراغوں سا من سب طرف سے کھلا ہے
لگے ساتھ بھاری کھلے آسماں میں
قفس سے نکل بندشوں سے گھرا ہے
کیوں لپٹا وہ چادر میں بے فکر ہو کر
گناہوں کا کھاتا ادھورا پڑا ہے
شجر روٹھا رہتا ہے ہر وقت دیکھو
نہیں کوئی عرصے سے آ کر رکا ہے
سبھی سے ہے رشتہ کوئی بے زباں سا
خرابہ مکاں جیسا لگنے لگا ہے
مقدر کے چابک سے پوچھو ذرا اب
چمن سے ہوا کیا ابھی بھی جدا ہے
مسلسل ہے ہوتی یہاں پر جو بارش
تو پھر کیوں مرا کوچہ سوکھا پڑا ہے
یہ جھوٹوں کی ہستی گھلی ہے فضا میں
حقیقت پہ دیکھو کیوں پردا پڑا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.