اندھیرے میں اجالا سا لگے ہے
اندھیرے میں اجالا سا لگے ہے
مجھے اب غیر بھی اپنا لگے ہے
بھرے بازار میں تنہا لگے ہے
وہ ہر پردے میں بے پردہ لگے ہے
مرے دل میں کھٹکتی ہے تمنا
مجھے ہر پھول اب کانٹا لگے ہے
مداری نے پتے کی بات کہہ دی
مرا بندر مجھے دانا لگے ہے
جسے پایاب سمجھا وہ کنارہ
سمندر سے کہیں گہرا لگے ہے
گزرنا ہے تجھے پھر امتحاں سے
وہ اپنے قول سے پھرتا لگے ہے
تجھے دو بوند پانی کون دیتا
سمندر بھی یہاں پیاسا لگے ہے
لہو روتی ہیں آنکھیں جس کی خاطر
مرا رونا اسے گانا لگے ہے
پرانی رسم ہے جوں توں نبھاؤ
نئے حالات سے ڈر سا لگے ہے
گھٹا کی چھاؤں سے وادی میں اترو
شگوفہ سا وہاں کھلتا لگے ہے
اسی احساس کے دم سے ہوں زندہ
تری آنکھوں میں کچھ اپنا لگے ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.