انگار تجلی نہیں شبنم بھی نہیں ہے
انگار تجلی نہیں شبنم بھی نہیں ہے
آنکھوں میں کوئی وادیٔ نیلم بھی نہیں ہے
میں گلشن الفت کے مقدر سے بری ہوں
اب دل میں مرے خواہش ہمدم بھی نہیں ہے
باران تجسس کبھی برسی نہیں مجھ پر
سوچوں کا کوئی طائر موسم بھی نہیں ہے
قاتل ہے کہ پھولوں کا لہو پیتا ہے ہر دن
حیرت ہے کہ اس پر کوئی ماتم بھی نہیں ہے
دنیا ہے کہ شمشیریں چلاتی ہے مجھی پر
میں ہوں کہ مرے زخموں پہ مرہم بھی نہیں ہے
مسکانے سے چمکے گی کبھی بوئے مقدر
ورنہ تو خوشی کا کوئی پرچم بھی نہیں ہے
میں کاوشؔ لا حرف تکلم سے ہوں نادم
وہ جس کو کہ ماضی کا کوئی غم بھی نہیں ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.