انگنت زخم کئی داغ زمانے کے ملے
انگنت زخم کئی داغ زمانے کے ملے
کتنے عنوان ہمیں ایک فسانے سے ملے
یوں تو ہر گام زمانے نے ہمیں ٹھکرایا
پھر بھی ہم تیرے لئے سارے زمانے سے ملے
احتراماً ترے قدموں پہ لٹائے اکثر
جتنے موتی بھی ہمیں دل کے خزانے سے ملے
طور پر جلوہ نمائی کی ہوئی رسم ادا
وہ ہمیں دل کی طرف آنکھ اٹھانے سے ملے
یاد ہے اتنا ملاقات ہوئی تھی ان سے
یہ نہیں یاد کہ وہ کس کے بہانے سے ملے
راہ ہموار پہ انسان بھٹک جاتے ہیں
منزل دل کے نشاں ٹھوکریں کھانے سے ملے
بات وہ ہے کہ جو بگڑے تو اثر پیدا ہو
تیر وہ ہے جو خطا ہو کے نشانے سے ملے
دل جو ٹوٹا تو کھلے روح پہ اسرار جمال
کتنے سورج ہمیں اک شمع بجھانے سے ملے
جان دے کر ہی ملا دوست کا پیغام طفیلؔ
وہ ہمیں آخری دیوار گرانے سے ملے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.