Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ہو رہا ہے ٹکڑے ٹکڑے دل میرے غم خوار کا

انور دہلوی

ہو رہا ہے ٹکڑے ٹکڑے دل میرے غم خوار کا

انور دہلوی

MORE BYانور دہلوی

    ہو رہا ہے ٹکڑے ٹکڑے دل میرے غم خوار کا

    ہے مرے زخم جگر میں کاٹ تیغ یار کا

    شور ہے غل ہے جہاں میں مردن دشوار کا

    ایک چلتا وار ہے ہیں تیغ نگاہ یار کا

    نغمہ دل کش ہے دشمن عندلیب زار کا

    ہے قفس میں بند ہونا کھولنا منقار کا

    مست کچھ ایسا ہوں چشم نیم مست یار کا

    ظرف خالی جانتا ہوں ساغر سرشار کا

    کیا کہوں کیا حال ہے مجھ ناتوان و زار کا

    ہوں نگاہ واپسیں اپنی دل بیمار کا

    آسماں پھرتا ہے حسب مدعائے مدعی

    راہ پر لانا غضب ہے ایسے کج رفتار کا

    بل بے بد خوئی مزاج یار میں سو بل پڑے

    ایک بل نکلا جو تار‌ گیسوئے خم دار کا

    دست ساقی پر لگائے آنکھ رہتا ہے مدام

    جام مے ہے دیدۂ حسرت کسی مے خوار کا

    کس قدر بشاش ہے اسرار سے خالی نہیں

    رنگ میرا اڑ گیا منہ دیکھ کر سوفار کا

    میں گرفتار وفا ہوں چھٹ کے جاؤں گا کہاں

    بال باندھا چور ہوں ہر تار زلف یار کا

    کوئی اک گردش تو ہو ایسی بھی ہاں اے چشم یار

    شیخ پوچھے مجھ سے رستہ خانہ خمار کا

    واہ رے قسمت کہ وہ میرے مقدر میں پڑا

    آہ نے جو بل نکالا چرخ کج‌ رفتار کا

    لے چلو واعظ کو ہاتھوں ہاتھ اٹھائے مے کشو

    پاسباں چل کر بنا دو خانہ خمار کا

    جان سننے والوں کی واعظ لبوں پر آ گئی

    واہ کیا کہنا ہے حضرت آپ کی گفتار کا

    ہے جو افتادوں سے کچھ نفرت تو نفرت ہی سہی

    کیوں زمیں پر گر پڑا سایہ تیری دیوار کا

    شکل مرہم دیکھ کر ڈرتا ہے میرا زخم دل

    کھول کر آنکھ اپنی دیکھا ہے جو منہ سوفار کا

    نالہ میرے لب پہ آتا ہے جو سو سو ناز سے

    کوئی پرتو لے اڑا شاید تری رفتار کا

    یہ تو ظاہر ہے کہ وصل ان کا کہاں اور ہم کہاں

    لیکن اس پیغام میں کچھ لطف ہے تکرار کا

    دل کو لے جا مجھ سے یا تو آپ لے یا بانٹ دے

    پر یہ حصہ ہے تیری گیسو کے اک اک تار کا

    الامان اس برش تیغ نظر سے الامان

    مانتی ہے برق بھی لوہا تیری تلوار کا

    ہاتھ سنبھلا رکھیو اے مشاطۂ جادو طراز

    اک جہان دل ہے بستہ طرۂ طرار کا

    ہوں تو دیوانہ ولے ہشیاریٔ مطلب تو دیکھ

    سر بھی پھوڑا ڈھونڈ کر پتھر تری دیوار کا

    کچھ ادھر سے عرض مطلب اور ادھر سے کچھ نہیں

    اک جداگانہ مزا ہے وصل میں تکرار کا

    کتنا گستاخی سے کھینچا ہے تجھے آغوش میں

    میں گلے کا ہار ہوں تیرے گلے کے ہار کا

    کیوں نہیں گرتا مرے آفت زدوں پر ہائے ہائے

    آسماں بھی ہے مگر سایہ تری دیوار کا

    چھو گئی کافر ہوا کس کی نگاہ گرم سے

    پھول کملایا ہوا ہے کچھ گل رخسار کا

    ملتی ہے آخیر کو کچھ کیفیت سوز و گداز

    صاعقہ حصہ ہے پہلا طالب دیدار کا

    ایک جلوہ پر چمک اٹھتی ہے سب اقلیم عشق

    کون عالم ہے ہمارے دیدۂ بے دار کا

    آسماں رکھتا ہے آنکھیں مہر و مہ سے اس سے پوچھ

    کون عالم ہے ہمارے دیدۂ بے دار کا

    حسن میں خود رفتگی ہے تو نہیں مانع حجاب

    بوئے گل کو پھاندنا کیا باغ کی دیوار کا

    وہ ہی اپنی چال ہے کوئی مرے کوئی جئے

    لے اڑے سارا چلن تم چرخ کج رفتار کا

    ناخن شمشیر قاتل کو دعا دیتے ہیں ہم

    عقدہ کھولا خوب انورؔ مردن دشوار کا

    مأخذ :
    • Deewan-e-Anwar Nazm-e-Dilfroz

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے