اپنا دکھ جیسے دبایا ہے مزا آیا ہے
اپنا دکھ جیسے دبایا ہے مزا آیا ہے
تیر پلکوں سے اٹھایا ہے مزا آیا ہے
کامیابی کی خوشی اور نشہ اپنی جگہ
یہ جو دشمن کو جلایا ہے مزا آیا ہے
اس کو تکلیف میں رکھنا مرا مقصد ہی نہیں
صرف احساس دلایا ہے مزا آیا ہے
دل تو دل ہے یہ کوئی پھول نہیں ہے لیکن
آپ نے جیسے چرایا ہے مزا آیا ہے
اب کہو شوق ملاقات میں اڑنے والو
ہجر کا بوجھ اٹھایا ہے مزا آیا ہے
کم سے کم روز یہ لہجہ تو بدلتی نہیں ناں
دل کتابوں سے لگایا ہے مزا آیا ہے
وہ جو منصف ہے پریشاں ہے وہ ایسے ہی نہیں
آئنہ اس کو دکھایا ہے مزا آیا ہے
چھوڑ جانا بہت آسان تھا لیکن شہبازؔ
میں نے رشتے کو نبھایا ہے مزا آیا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.