اپنا پتہ پھٹی ہوئی جیبوں میں ڈال کر
اپنا پتہ پھٹی ہوئی جیبوں میں ڈال کر
گھر سے نکل پڑے ہیں بلاؤں کو ٹال کر
قاتل ہیں راستے تو سفر ہے لہو لہو
آؤ شگون دیکھ لیں سکہ اچھال کر
سمجھیں کہیں نہ کوئی عجوبہ تجھے یہ لوگ
غربت کی زندگی کا نہ اتنا ملال کر
تاریکیٔ حیات میں گم وہ بھی ہو گئے
چلتے تھے راستہ جو بہت دیکھ بھال کر
خون جگر سے لکھی ہے تاریخ عہد نو
شاعر نے سب حقیقتیں شعروں میں ڈھال کر
مرجھا گیا ہے تیری جدائی میں نخل دل
آب وصال سے تو اسے پھر نہال کر
پیتے ہیں روز شب تری فرقت میں ساقیا
اپنا شباب ساغر و مینا میں ڈھال کر
پرکاشؔ میری لاش کو کاغذ کا دے کفن
بے وقت موت کا نہ تو اتنا ملال کر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.