اپنے گھر میں دیپ جلانا بھول گئے
بچوں کو تہذیب سکھانا بھول گئے
تلواروں کی آرائش کا موسم تھا
کمرے میں گلدان سجانا بھول گئے
خود سے ملنے کی چاہت میں تھے مصروف
ہم دنیا کو پھر اپنانا بھول گئے
فاصلہ اس نے رکھ چھوڑا تھا اپنے بیچ
ہم بھی اس سے ہاتھ ملانا بھول گئے
موجوں کا کچھ لطف و کرم ہی ایسا تھا
ہم کشتی ساحل پر لانا بھول گئے
تنہائی کا بوجھ ہے اپنے شانوں پر
خود کو یہ احساس دلانا بھول گئے
سوکھی دھرتی اپنی کوکھ سے کیا دے گی
بادل اب کے جل برسانا بھول گئے
خالدؔ اکثر رات ملی فٹ پاتھوں پر
ہم خوابوں سے آنکھ ملانا بھول گئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.