اپنے ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے سر آ گئے ہیں
اپنے ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے سر آ گئے ہیں
اے مرے تیغ بکف تشنہ جگر آ گئے ہیں
فصل جاں کاٹنے والوں کو خبر کر دینا
پھر بہار آ گئی پھر شانوں پہ سر آ گئے ہیں
تیشہ انداز رہے روشنیوں کے لشکر
خود بہ خود کب مری دیوار میں در آ گئے ہیں
پارۂ ابر بھی کیا دست ہنر رکھتا تھا
پیڑ سرسبز ہوئے برگ و ثمر آ گئے ہیں
خاک رہ اس کی اٹھائی ہے تو کیا دیکھتا ہوں
میری مٹھی میں کئی شمس و قمر آ گئے ہیں
آسماں اتنی رعونت نہیں اچھی ہوتی
کیا خبر تجھ کو نہیں ہے مرے پر آ گئے ہیں
سر پھری دھوپ سے میں نے جو نمٹنا چاہا
آفتابوں کی حمایت میں شجر آ گئے ہیں
چاہئے جن کے لیے آنکھ کے اندر اک آنکھ
ہم کو اکثر وہ مناظر بھی نظر آ گئے ہیں
رنگ بے کیف جو ہیں کوئے توجہ کے تو کیا
تیرے دیوانے ترے زیر اثر آ گئے ہیں
اس کی آواز پہ لبیک کی آواز عبث
درمیاں عہد گذشتہ کے کھنڈر آ گئے ہیں
آج دریا نے دکھائی ہے بڑی فیاضی
میرے ہاتھوں میں بھی دو چار گہر آ گئے ہیں
مل گئے حرف و نوا اس کے تبسم سے مجھے
شاخ اظہار پہ بھی برگ و ثمر آ گئے ہیں
اس کے بچ بچ کے گزرنے سے ہوا ہے ظاہر
میری آنکھوں میں اسے خواب نظر آ گئے ہیں
اب وہ جذبات میں گرمی نہ تمنا نہ امنگ
راستہ بھول کے ہم لوگ کدھر آ گئے ہیں
اے چراغو سنو اب دست دعا کر لو بلند
جن کی جانب تھا اشارہ وہ کھنڈر آ گئے ہیں
ہجرتیں اوڑھ کے نکلے تھے پرندے یاورؔ
شام آئی ہے تو پھر لوٹ کے گھر آ گئے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.