اپنے ہی کسی سائے سے ٹکرایا ہوں پھر بھی
اپنے ہی کسی سائے سے ٹکرایا ہوں پھر بھی
محسوس یہ ہوتا ہے یہاں آیا ہوں پھر بھی
کاغذ پہ سیاہی کی طرح پھیل رہا ہوں
یہ حرف ندامت نہیں شرمایا ہوں پھر بھی
ہر چند سفر درد کے دریا کا سفر تھا
ساحل کے کسی خواب سے گھبرایا ہوں پھر بھی
ساغر میں سر شام لہو میرا ملا ہے
اک نشۂ بے نام میں لہرایا ہوں پھر بھی
ہرچند کسی جیتنے والے نے صدا دی
ہارے ہوئے لوگوں میں چلا آیا ہوں پھر بھی
ملتے ہی رہے زخم مری کشت بدن کو
احساس کے ہر پھول کا سرمایہ ہوں پھر بھی
سورج کے مقابل تھا ظفرؔ دشت سحر میں
میں پیاس کے صحرا میں کوئی سایا ہوں پھر بھی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.