اپنے ہی لوگ اپنے نگر اجنبی لگے
واپس گئے تو گھر کی ہر اک شے نئی لگے
خانوں میں بٹ چکی تھی سمندر کی وسعتیں
دریا محبتوں کے سمٹتی ندی لگے
راتوں کی بھینٹ چڑھ گئے وہ چاند جیسے لوگ
تاریکیوں کے دیو جنہیں کاغذی لگے
سونا سمیٹتی تھی جہاں کھیتیوں میں دھوپ
وہ فصل میرے گاؤں کی خاشاک سی لگے
راوی کی شام سندھ کی نکھری ہوئی سحر
کام آ سکے تو ان کو مری زندگی لگے
قیصرؔ دلوں کے فاصلے ایسے نہ تھے کبھی
دو گام طے کروں تو مجھے اک صدی لگے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.