اپنے ہونے پہ نہ ہونے کا نشاں رکھا ہے
اپنے ہونے پہ نہ ہونے کا نشاں رکھا ہے
صاف ظاہر ہوں مگر خود کو نہاں رکھا ہے
سوچ سکتا ہوں تجھے دیکھ نہیں سکتا میں
کیا بتاؤں کہ تجھے میں نے کہاں رکھا ہے
وہ مری سمت میں آئے گا پلٹنے کے لئے
میں نے امکان سے آگے بھی گماں رکھا ہے
آنکھ کھلتی ہے کسی اور جہاں میں میری
بند آنکھوں میں کوئی اور جہاں رکھا ہے
سلسلہ وار مرے خواب میں آ کر اس نے
کس تواتر سے کہانی کو رواں رکھا ہے
اس نے رکھا ہے مجھے ساتھ تو اپنے لیکن
دل ہی رکھا ہے مرا دل میں کہاں رکھا ہے
بے خیالی نے اٹھا کر یہ مرا پاؤں عزیرؔ
جس جگہ کوئی نہیں پہنچا وہاں رکھا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.