اپنے کہتے ہیں کوئی بات تو دکھ ہوتا ہے
اپنے کہتے ہیں کوئی بات تو دکھ ہوتا ہے
ہنس کے کرتے ہیں اشارات تو دکھ ہوتا ہے
جن سے منسوب مرے دل کی ہر اک دھڑکن ہو
وہ نہ سمجھیں مرے جذبات تو دکھ ہوتا ہے
مجھ کو محروم کیا تم نے گلا کوئی نہیں
ہوں جو غیروں پہ عنایات تو دکھ ہوتا ہے
جسم و جاں جن کے لیے ہم نے لٹا ڈالے ہوں
چھوڑ جائیں جو وہی ساتھ تو دکھ ہوتا ہے
دور سے روز مسرت کا دکھا کر بادل
غم کی کرتے ہیں جو برسات تو دکھ ہوتا ہے
ہجر میں دن تو کسی طور گزر جاتے ہیں
جلنے لگتی ہے کبھی رات تو دکھ ہوتا ہے
بے سبب چھوڑ دیا اس نے کوئی بات نہیں
لوگ کرتے ہیں سوالات تو دکھ ہوتا ہے
مجھ کو بے لوث محبت کے عوض میں شمسیؔ
ہو عطا زخم کی سوغات تو دکھ ہوتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.