اپنے ماضی کے نقوش اور گزشتہ کر کے
اپنے ماضی کے نقوش اور گزشتہ کر کے
لوٹ آیا ہوں تمنا میں اضافہ کر کے
ذہن کے واسطے کرتا ہوں اجالوں کی تلاش
اپنے کمرے میں ہر اک سمت اندھیرا کر کے
لفظ در لفظ چکایا ہے معانی کا خراج
اپنے الفاظ کو کچھ اور شگفتہ کر کے
فکر کی شکل کو کاغذ پے اتاروں گا کبھی
ذہن میں اٹھتے خیالوں کا احاطہ کر کے
حوصلوں کو نئی پرواز یقیناً ملتی
تم نے دیکھا ہی نہیں خود کو شکستہ کر کے
تلخ یادیں بھی تو ہوتی ہیں بہرحال عذاب
اس لئے رکھتا نہیں ان کا ذخیرہ کر کے
گھر کے دروازے پے آئینہ لگا کر اکثر
دیکھتا رہتا ہوں لوگوں کا تماشہ کر کے
تجربے شعر کی لے لیں گے نئی شکل ابھی
سوچ کا دائرہ دیکھو تو کشادہ کر کے
جان لینا کے تمہارا وہ نہیں تھا بسملؔ
اس کو جانے دو جو جاتا ہے بہانا کر کے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.