اپنے رنج و غم بانٹے ہم سے با خبر نکلے
اپنے رنج و غم بانٹے ہم سے با خبر نکلے
ساتھ چلنے والوں میں کوئی ہم سفر نکلے
بے سعادتی ٹھہرے خواہ اب ہنر نکلے
سب نے جس سے روکا تھا ہم وہ کام کر نکلے
اک عجیب سناٹا محو شعر خوانی تھا
ہم جہاں جہاں پہونچے ہم جدھر جدھر نکلے
جانے کس کے ہاتھ آئیں اور کیا فضا پائیں
پھر علامتیں بن کر میرے بال و پر نکلے
گہرے پانیوں سے کیا اور دوستو ملتا
میری خالی آنکھوں میں سینکڑوں بھنور نکلے
منزلوں کے پیچھے بھی اور منزلیں ہوں گی
رہ گزر سے آگے بھی کوئی رہ گزر نکلے
کائنات کی ہستی اک فضائے سرمستی
جیسے چاندنی شب میں ذہن گشت پر نکلے
ہم نے ان کو دیکھا ہے ہم نے ان کو پرکھا ہے
جتنے دیدہ ور نکلے خاصے کم نظر نکلے
صرف میں نہ تھا تنہا زد میں دھوپ کی ایسا
میری طرح کے ہر سو انگنت شجر نکلے
کیا بھرے زمانے میں بس یہی نہیں ممکن
میں کہیں ٹھہر جاؤں کوئی میرا گھر نکلے
دوسروں نے کیا حیرتؔ غم کو غم نہیں سمجھا
ہم مگر غلط نکلے اور کس قدر نکلے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.