اپنے تخیلات کا نقشہ نکال کے
اپنے تخیلات کا نقشہ نکال کے
غزلیں کہیں ہیں خون پسینہ نکال کے
گھر کو کیا تھا صاف کسی کا مٹا کے گھر
افسوس کر رہا ہوں میں جالا نکال کے
تم کو قلندری کی ہے دل میں جو آرزو
رکھنی پڑے گی دل سے یہ دنیا نکال کے
اب اس کی اصلیت ہے زمانہ کے سامنے
چہرے سے اس نے رکھ دیا چہرہ نکال کے
موجوں سے لڑنا اس کی تھی عادت اسی لئے
وہ آ گیا کنارے پے رستہ نکال کے
دل بجھتے بجھتے میرا اچانک چمک اٹھا
یہ کون کھینچ لایا اجالا نکال کے
آنکھیں تریرتے ہوئے وہ دیکھتے ہیں اب
رکھا تھا جن کو اپنا کلیجہ نکال کے
پوچھو نہ بے ضمیروں سے کیسے بچے ادیبؔ
لے آئے اپنے آپ کو زندہ نکال کے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.