اپنی الگ ہی سمت میں راہیں نکال کر
اپنی الگ ہی سمت میں راہیں نکال کر
وہ لے گیا ہے جسم سے سانسیں نکال کر
لوٹے تو یہ نہ سوچے کہ خط جھوٹ موٹ تھے
میں رکھ چلا ہوں بام پر آنکھیں نکال کر
میرے کفن کے بند نہ باندھو ابھی مجھے
ملنا ہے ایک شخص سے بانہیں نکال کر
کیا ظرف ہے درخت کا حیرت کی بات ہے
ملتا ہے پھر خزاں سے جو شاخیں نکال کر
تو ہی بتا کہ آنکھ کے شمشان گھاٹ میں
کیسے بسا لوں میں تجھے لاشیں نکال کر
ہر شخص اپنے قد کے برابر دکھائی دے
سوچیں جو درمیان سے ذاتیں نکال کر
چاہو تو کر لو شوق سے تم بھی حساب وصل
اک پل بچے گا ہجر کی راتیں نکال کر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.