اپنی کھوئی ہوئی جنتیں پا گئے زیست کے راستے بھولتے بھولتے
اپنی کھوئی ہوئی جنتیں پا گئے زیست کے راستے بھولتے بھولتے
موت کی وادیوں میں کہیں کھو گئے تیری آواز کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے
مست و سرشار تھے کوئی ٹھوکر لگی آسماں سے زمیں پر یوں ہم آ گئے
شاخ سے پھول جیسے کوئی گر پڑے رقص آواز پر جھومتے جھومتے
کوئی پتھر نہیں ہوں کہ جس شکل میں مجھ کو چاہو بنایا بگاڑا کرو
بھول جانے کی کوشش تو کی تھی مگر یاد تم آ گئے بھولتے بھولتے
آنکھیں آنسو بھری پلکیں بوجھل گھنی جیسے جھیلیں بھی ہوں نرم سائے بھی ہوں
وہ تو کہیے انہیں کچھ ہنسی آ گئی بچ گئے آج ہم ڈوبتے ڈوبتے
اب وہ گیسو نہیں ہیں جو سایہ کریں اب وہ شانے نہیں جو سہارا بنیں
موت کے بازوؤ تم ہی آگے بڑھو تھک گئے آج ہم گھومتے گھومتے
دل میں جو تیر ہیں اپنے ہی تیر ہیں اپنی زنجیر سے پا بہ زنجیر ہیں
سنگریزوں کو ہم نے خدا کر دیا آخرش رات دن پوجتے پوجتے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.