اپنی خودی کو تم سر بازار بیچ کر
اپنی خودی کو تم سر بازار بیچ کر
زندہ ہو کیسے دولت کردار بیچ کر
یا رب یہ کیا عذاب ہے نسل جدید پر
کرتی ہے عیش پرکھوں کی دستار بیچ کر
حاصل کی اس کے بیٹے نے کرسی مدیر کی
اتنا پڑھایا باپ نے اخبار بیچ کر
اس بد نصیب باپ کی مجبوریاں نہ پوچھ
خوشیاں خریدتا ہے جو گھر بار بیچ کر
مہنگی بہت پڑی مجھے سورج کی دوستی
پچھتا رہا ہوں سایۂ دیوار بیچ کر
جن کو شعور بندگی کرتا ہے رب عطا
جنگل خرید لیتے ہیں گھر بار بیچ کر
عالمؔ اسی طرح سے جو ہم منتشر رہے
کھا جائیں گے وطن کو یہ غدار بیچ کر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.