اپنی خواہش میں جو بس گئے ہیں وہ دیوار و در چھوڑ دیں
اپنی خواہش میں جو بس گئے ہیں وہ دیوار و در چھوڑ دیں
دھوپ آنکھوں میں چبھنے لگی ہے تو کیا ہم سفر چھوڑ دیں
دست بردار ہو جائیں فریاد سے اور بغاوت کریں
کیا سوالی ترے قصر انصاف! زنجیر در چھوڑ دیں
جب لعاب دہن اپنا تریاق ہے دست و بازو بھی ہیں
سانپ گلیوں میں لہرا رہے ہیں تو کیا ہم نگر چھوڑ دیں
شہریاروں سے ڈر جائیں ہم حق پرستی سے توبہ کریں
اپنے اندر بھی اک آدمی ہے اسے ہم کدھر چھوڑ دیں
ہم نے دیکھا ہے دریاؤں کا رخ کنورؔ شہر کی سمت ہے
شہر والے اگر بے خبر ہیں تو کیا بے خبر چھوڑ دیں
- کتاب : Ghazal Calendar-2015 (Pg. 22.10.2015)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.