اپنی سچائی کا آزار جو پالے ہوئے ہیں
اپنی سچائی کا آزار جو پالے ہوئے ہیں
خود کو ہم گردش آفات میں ڈالے ہوئے ہیں
بند مٹھی میں جو خوشبو کو سنبھالے ہوئے ہیں
یہ سمجھتے ہیں کہ طوفان کو ٹالے ہوئے ہیں
ہیں تو آباد مگر در بدری کی زد پر
وہ بھی میری ہی طرح گھر سے نکالے ہوئے ہیں
اپنی رفتار سے آگے بھی نکل سکتا ہوں
مجھ پہ کب حاوی مرے پاؤں کے چھالے ہوئے ہیں
اب کسی باب سماعت پہ نہ دستک دیں گے
دفن صحرا کی فضاؤں میں جو نالے ہوئے ہیں
سرخ رو جو ہے وہ میرا کوئی ہم زاد ہے کیا
نوک نیزہ پہ وہ سر کس کا اچھالے ہوئے ہیں
ان کے شانے ہیں ہر اک بار گراں سے خالی
اب وہ دستار نہیں سر کو سنبھالے ہوئے ہیں
وضع کا پاس بھی رکھنے کے رہے اہل کہاں
خود کو ہم اور کسی سانچے میں ڈھالے ہوئے ہیں
اس کی خوشبو سے طلسمات کا در کھلنے لگا
دیدہ و دل قد و گیسو کے حوالے ہوئے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.