اپنی طبیعتوں میں نہ غصہ نہ تاؤ تھا
اپنی طبیعتوں میں نہ غصہ نہ تاؤ تھا
بے التفاتیوں کے سبب یہ سوبھاؤ تھا
اعصاب میں تناؤ دلوں میں کھنچاؤ تھا
موضوع گفتگو یہی بازار بھاؤ تھا
اپنا وجود بھی کوئی کاغذ کی ناؤ تھا
بہتا چلا گیا ہے جہاں تک بہاؤ تھا
سادہ تھے ایسے ہم کہ سمجھ ہی نہیں سکے
باتوں میں کیسا پھیر تھا کیسا گھماؤ تھا
گلیاں وہیں ہیں شہر وہی راستے وہی
وہ لوگ ہی نہیں رہے جن سے لگاؤ تھا
اپنے لیے سنے ہوئے قصوں میں تھا مزہ
احباب کے خلوص میں ایسا دباؤ تھا
دشمن بھی دشمنوں کی طرح مل نہیں سکا
اپنے مزاج میں بھی بڑا رکھ رکھاؤ تھا
مجبور یوں ہوئے کہ ہمیں یاد ہی نہیں
میلان کس طرف تھا کدھر کو جھکاؤ تھا
تاریخ لکھنے والوں سے اقبالؔ پوچھئے
اپنے وطن میں پہلے بھی کیا بھید بھاؤ تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.