عقل حیران ہے رحمت کا تقاضا کیا ہے
عقل حیران ہے رحمت کا تقاضا کیا ہے
دل کو تقصیر کی ترغیب تماشا کیا ہے
انہیں جب غور سے دیکھا تو نہ دیکھا ان کو
مقصد اس پردے کا اک دیدۂ بینا کیا ہے
ہم شہادت کا جنوں سر میں لیے پھرتے ہیں
ہم مجاہد ہیں ہمیں موت کا کھٹکا کیا ہے
اڑتا پھرتا ہوں میں صحرا میں بگولے کی طرح
کچھ نہیں علم مرا ملجا و ماویٰ کیا ہے
میرا منشا ہے کہ دنیا سے کنارا کر لوں
اے غم دوست بتا تیرا ارادہ کیا ہے
بات پر پیچ ہنسی لب پہ شکن ماتھے پر
دل سمجھنے سے ہے قاصر یہ معمہ کیا ہے
جو تری زلف پہ جا کر نہ کھلے پھول وہ کیا
جو نہ الجھے ترے دامن سے وہ کانٹا کیا ہے
ایک کھلتا ہوا گلشن ہے تمہارا پیکر
تم تبسم ہی تبسم ہو تمہارا کیا ہے
میں نے اک بات جو پوچھی تو بگڑ کر بولے
بد گمانی کے سوا آپ نے سیکھا کیا ہے
وہ فقیروں کو نوازیں نہ نوازیں اے چرخؔ
ہم دعا دے کے چلے آئیں گے اپنا کیا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.