عرض طلب کی ہم کو اجازت کہاں ہے اب
عرض طلب کی ہم کو اجازت کہاں ہے اب
گروی قلم ہے اور مقفل زباں ہے اب
روکا گیا قلم کو تو تیشہ بنا لیا
ہر لفظ تیر اور یہ لب اک کماں ہے اب
ہم بے خودی میں ترک تمنا تک آ گئے
اب فکر دل نہیں ہے نہ تشویش جاں ہے اب
یہ ہجر ہے کہ وصل کہ دوری ہے یا ہے قرب
کیا سلسلہ یہ تیرے مرے درمیاں ہے اب
یوں تھا کہ جو بھی رت تھی کلام و سخن کی تھی
یوں ہے بس ایک موسم آہ و فغاں ہے اب
پھونکے ہیں خواب راتوں کے بجھتے الاؤ میں
آنکھوں میں کچھ نہیں ہے دھواں ہی دھواں ہے اب
ہر اک قدم پہ کوئی بھرم ٹوٹتا گیا
اپنے یقیں کا ہم کو فقط اک گماں ہے اب
قصہ پرانے ہو گئے رانجھا کے قیس کے
سب کی زباں پہ میری نئی داستاں ہے اب
میں آخری دیا ہوں سیہ بخت رات کا
میرے ہی دم سے مہر و وفا کا نشاں ہے اب
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.