اثر میں آتا گیا میں تری سخاوت کے
اثر میں آتا گیا میں تری سخاوت کے
دراز ہوتے گئے ہاتھ میری حاجت کے
لبوں پہ موجۂ نکہت یوںہی نہیں رقصاں
کھلے ہیں پھول مرے دل میں تیری چاہت کے
تپش کچھ ایسی تھی خورشید استقامت کی
پسینے چھوٹ گئے شعلۂ عداوت کے
یہ بات بات میں ترک تعلقات کی بات
بتاؤ کیا یہی آداب ہیں محبت کے
ہمیں بھی بخش سکوں آ کبھی ادھر بھی آ
کہ ہم بھی ہیں متمنی تری زیارت کے
نوازشیں تری حائل اگر نہیں ہوتیں
تو ہم بھی کرتے نظارے سکون و راحت کے
دمک رہے ہیں جو دامن پہ بن کے لعل و گہر
حبیبؔ اشک ہیں دراصل وہ ندامت کے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.