اشک غم خون دل پئے ہیں لوگ
اشک غم خون دل پئے ہیں لوگ
جانے کس کس طرح جئے ہیں لوگ
آہ سینہ میں اک لئے ہیں لوگ
غم ابھی معتبر کئے ہیں لوگ
مے تشنہ لبی پئے ہیں لوگ
پھر بھی خود کو لئے دئیے ہیں لوگ
چاک ہر فصل گل میں ہوتا ہے
جیب و داماں کو کیا سیے ہیں لوگ
لو کہاں صرف کچھ اٹھے ہے دھواں
مفلسوں کے بجھے دئیے ہیں لوگ
صاحبو جام جم کی خیر مناؤ
یوں لگے ہے کہ کچھ پئے ہیں لوگ
دل یہ بولے ہے سنگ ہی ہوں گے
دست خالی میں کچھ لئے ہیں لوگ
کتنی صدیوں سے پا رہے ہیں سزا
کیسا جرم وفا کئے ہیں لوگ
میر کا جام اور شفیقؔ کی مے
خوب جی کھول کر پئے ہیں لوگ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.