اشک غم مجھ کو بہر صورت چھپانا ہی پڑا
اشک غم مجھ کو بہر صورت چھپانا ہی پڑا
آپ نے جب حال پوچھا مسکرانا ہی پڑا
ان کو مجبوراً نقاب رخ اٹھانا ہی پڑا
جرأت اہل نظر کو آزمانا ہی پڑا
وائے مجبوری مذاق برق کی تسکین کو
آشیانہ پھر گلستاں میں بنانا ہی پڑا
آج وہ بے درد آمادہ ہے سننے کے لئے
قصۂ درد محبت اب سنانا ہی پڑا
تھا جو احساس محبت کی نزاکت کا خیال
اپنا دامن ان کے ہاتھوں سے چھڑانا ہی پڑا
دیدنی ہیں یہ محبت کی کرشمہ سازیاں
ان کو مجھ پر ظلم کر کے مسکرانا ہی پڑا
درد دل کچھ رنگ لائے گا مجھے معلوم تھا
آپ کو آخر مری منزل تک آنا ہی پڑا
ان کی بدنامی کا اندیشہ رہا پیش نظر
انتہائے درد و غم میں مسکرانا ہی پڑا
ہو گئے مجبور یوں جلوہ دکھانے کے لئے
دل بنانے کے لئے دل کو مٹانا ہی پڑا
دیکھ کر صحن گلستاں میں بہاروں کا ہجوم
حضرت واعظ کو بھی ساغر اٹھانا ہی پڑا
جذبۂ بے اختیار شوق سے مجبور تھے
ساجدؔ ان کے آستاں پر سر جھکانا ہی پڑا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.