اشک اس شان سے کچھ دار پلک پر نکلے
اشک اس شان سے کچھ دار پلک پر نکلے
جس طرح ظلم کی بستی سے پیمبر نکلے
موجۂ درد کبھی آہ میں ڈھل کر نکلے
جامۂ ابر میں جس طرح سمندر نکلے
ہم کہ شاکی تھے شب رفتہ کے پیکاں سے مگر
روز روشن ترے ہاتھوں میں بھی خنجر نکلے
میں جنہیں گوہر نایاب سمجھ بیٹھا تھا
ہاتھ میں لے کے جو دیکھا تو وہ پتھر نکلے
کس کے ماتھے کو کہوں اپنے لہو کی تقدیر
میرے قاتل مرے اپنے ہی برادر نکلے
ان کے ہر وعدے پہ امید کا خوں ہوتا رہا
ان کے وعدے بھی مرے دور کے رہبر نکلے
دھوپ جن ذروں کو دیتی رہی جلنے کا پیام
رات آئی تو وہی صورت اختر نکلے
دامن شب پہ گرے اشک جو تارے بن کر
سینۂ شاخ سے ابھرے تو وہ اخگر نکلے
مرمریں جسم شرابوں کی مہک دست ہوس
رات بھیگی تو کئی رنگ کے منظر نکلے
چشم دنیا میں جو مٹی کے پیالے تھے فقط
دست ساقی میں جو پہنچے تو وہ ساغرؔ نکلے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.