اشک سے دریا ہوا دریا سے طوفاں ہو گیا
اشک سے دریا ہوا دریا سے طوفاں ہو گیا
کشتیٔ عمر رواں کا ساز و ساماں ہو گیا
فصل گل میں دل کی وحشت کا جو ساماں ہو گیا
چاک دامن ہو گیا پرزے گریباں ہو گیا
دفعتاً اس نے رخ روشن سے جب الٹی نقاب
ایک میری بات کیا عالم بھی حیراں ہو گیا
یوں بظاہر برق کی پوری ہوئی خواہش مگر
آشیانہ جل کے خود گلشن پہ قرباں ہو گیا
اب رہائی کی کوئی صورت نظر آتی نہیں
مرغ دل میرا اسیر زلف پیچاں ہو گیا
رنج و غم درد و الم ساقیؔ نے اپنے دے دئے
میری خاطر خوب آسائش کا ساماں ہو گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.