اشکوں کو اپنی آنکھ میں پیہم لیے ہوئے
اشکوں کو اپنی آنکھ میں پیہم لیے ہوئے
ہم چل رہے ہیں جیسے شرابی پیے ہوئے
کیا جانے کیا ہوا ہے کہ دیوانہ رو پڑا
لیلیٰ گئی ہے دشت سے پردہ کیے ہوئے
اب کے شب فراق کا عالم نہ پوچھیے
مایوس اب سحر سے ہمارے دیے ہوئے
یہ ارتقا ہے ان کا کہ پستی کی ابتدا
بین السطور تھے جو وہ اب حاشیے ہوئے
الزام ہم پہ رکھ کے وہ اٹھے چلے گئے
بیٹھے رہے ہم اپنے لبوں کو سیے ہوئے
اب انتظار نامہ براں ختم ہو چکا
نا پید اپنے شہر سے اب ڈاکئے ہوئے
اچھی زمیں میں شعر بھی اچھے ہوئے مگر
دانشؔ کمال تنگ ترے قافیے ہوئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.