اسیر عظمت کردار بھی نہیں ہوئے ہیں
اسیر عظمت کردار بھی نہیں ہوئے ہیں
ابھی تو صاحب دستار بھی نہیں ہوئے ہیں
ہم اک طرح سے گرفتار تو ہوئے ہیں مگر
کچھ اس طرح سے گرفتار بھی نہیں ہوئے ہیں
ہمیشہ لیتے ہیں ہم خود اذیتی کا مزہ
ہمارے درد گراں بار بھی نہیں ہوئے ہیں
ابھی سے کس لیے تم کو پڑی ہے جانے کی
ابھی تو بند یہ بازار بھی نہیں ہوئے ہیں
ابھی خیال میں ہم نے کیا ہے گھر تعمیر
ابھی تو اس میں گرفتار بھی نہیں ہوئے ہیں
ہزاروں کام ہمارے لیے ہیں کیوں تیار
ابھی تو نیند سے بیدار بھی نہیں ہوئے ہیں
تمام لوگ گھروں میں دبک کے جا بیٹھیں
یہ شہر اتنے پر اسرار بھی نہیں ہوئے ہیں
اٹھیں اور اس کی گلی میں کہیں بھی جا بیٹھیں
حنیفؔ اتنے سبک سار بھی نہیں ہوئے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.