اسیران حوادث کی گراں جانی نہیں جاتی
اسیران حوادث کی گراں جانی نہیں جاتی
جہاں سے خون انسانی کی ارزانی نہیں جاتی
دروغ مصلحت کے دیکھ کر آثار چہروں پر
حقیقت آشنا آنکھوں کی حیرانی نہیں جاتی
نشان خسروی تو مٹ گئے ہیں لوح عالم سے
کلاہ خسروی سے بوئے سلطانی نہیں جاتی
اندھیرا اس قدر ہے شہر پر چھایا سیاست کا
کسی بھی شخص کی اب شکل پہچانی نہیں جاتی
زمانہ کربلا کا نام سن کر کانپ اٹھتا ہے
ابھی تک خون شبیری کی جولانی نہیں جاتی
فزوں تر اور ہوتے جا رہے ہیں چاک دامن کے
رفو گر سے ہماری چاک دامانی نہیں جاتی
یہ مانا روشنی کو پی گئی ظلمت جہالت کی
مگر اس ذرۂ خاکی کی تابانی نہیں جاتی
- کتاب : اردو غزل کا مغربی دریچہ(یورپ اور امریکہ کی اردو غزل کا پہلا معتبر ترین انتخاب) (Pg. 244)
- مطبع : کتاب سرائے بیت الحکمت لاہور کا اشاعتی ادارہ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.