اور بھی کوئی رب سے ملنے کا رستہ ہے بابا جی
اور بھی کوئی رب سے ملنے کا رستہ ہے بابا جی
دنیا کو ہم کھو نہ بیٹھیں جی ڈرتا ہے بابا جی
کل اور جز کی رام کہانی مجھ کو سمجھ نہیں آتی
سنتے ہیں قطرہ بھی دریا ہو جاتا ہے بابا جی
دھوپ کی دستک کیسے اس کو باہر لے کر آتی ہے
پیڑ میں ہی پوشیدہ کیا سایہ ہوتا ہے بابا جی
آپ نے ہم کو بتلایا تھا موت تو اک دروازہ ہے
لوگ سمجھتے ہیں کہ بندہ مر جاتا ہے بابا جی
میری سوچوں کا لاوا ہی مجھ کو زندہ رکھتا ہے
ورنہ برفیلے لہجوں سے خوں جمتا ہے بابا جی
میں نے جب بھی سوچا ہے بس اپنی ذات کا سوچا ہے
میرا لکھا کیسے زندہ رہ سکتا ہے بابا جی
اسی لیے تو آصفؔ بھی اک چپ سی سادھے پھرتا ہے
کون یہاں پر اس کی باتوں کو سنتا ہے بابا جی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.