اور کچھ دن یہاں رکنے کا بہانہ ملتا
اور کچھ دن یہاں رکنے کا بہانہ ملتا
اس نئے شہر میں کوئی تو پرانا ملتا
میں تو جو کچھ بھی تھا جتنا بھی تھا سب مٹی تھا
تم اگر ڈھونڈتے مجھ میں تو خزانہ ملتا
مجھ کو ہنسنے کے لیے دوست میسر ہیں بہت
کاش رونے کے لیے بھی کوئی شانہ ملتا
میں کڑی دھوپ میں بھٹکا ہوں تمہاری خاطر
تم جو مل جاتے تو موسم بھی سہانہ ملتا
میرے آنسو تری آنکھوں سے چھلکتے کسی روز
تیری زلفوں سے کسی دن مرا شانہ ملتا
تم نے جاتے ہوئے دیکھا ہی نہیں میری طرف
ورنہ مجھ میں تمہیں اپنا ہی فسانہ ملتا
ساتھ رہنے کی چکائی ہے بڑی قیمت بھی
چھوڑ دیتے جو تجھے ہم تو زمانہ ملتا
کھیت پر لگنے لگے پہرے خزانوں کی طرح
یوں نہ ہوتا تو پرندوں کو بھی دانہ ملتا
لے گئے ہم ہی اسے مندر و مسجد کی طرف
ورنہ ہر راہ میں اس كا ہی ٹھکانہ ملتا
- کتاب : دل پرندہ ہے (Pg. 102)
- Author : شکیل اعظمی
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2023)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.