اور تو دھرتی پہ کب کیسے کہاں اگتا نمک
اور تو دھرتی پہ کب کیسے کہاں اگتا نمک
ہم نے اکثر نیشکر بویا ہے اور کاٹا نمک
اس رخ گل رنگ پر کجلاہٹیں سی دھوپ کی
جیسے شیرینی میں کوئی گھول دے تھوڑا نمک
لذت آزار جب پامال ہو تو اور لطف
زخم کو وہ دور ہی سے کاش دکھلاتا نمک
وہ تعلق میں روا رکھتا ہے لطف و جور ساتھ
یعنی اس مشروب میں آدھی شکر آدھا نمک
گھل رہا ہو جب فضا میں ایک تیکھا ذائقہ
سرسراتا ہے ہواؤں میں بھی تب گویا نمک
ریت کر دیتے ہیں چٹانوں کو موسم کے بھنور
میں تو پھر برسات کی بھیگی ہوا کھاتا نمک
گھر کی دیواروں کو میرے جتنا لونی کھا گئی
اتنا میں نے زندگی کا ہے کہاں کھایا نمک
جب سمندر چڑھ کے میرے سر کے اوپر آ گیا
کان میں اک لہر بولی کیسے کچھ چکھا نمک
وہ نمک داں ہے سراپا شوخ چنچل سانورا
اس کی مرلی کے سروں میں بھی ہے لہراتا نمک
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.