اول تو یہ دھج اور یہ رفتار غضب ہے
اول تو یہ دھج اور یہ رفتار غضب ہے
تس پہ ترے پازیب کی جھنکار غضب ہے
کیوں کر نہ تجھے دوڑ کے چھاتی سے لگا لوں
پھولوں کا گلے میں ترے یہ ہار غضب ہے
جب دیکھوں ہوں کرتی ہے مرے دل کو پریشاں
آشفتگیٔ طرۂ طرار غضب ہے
اے کاش یہ آنکھیں مجھے یہ دن نہ دکھاتیں
اس شوق پہ محرومیٔ دیدار غضب ہے
خورشید کا منہ ہے کہ طرف ہو سکے اس سے
یعنی وہ بر افروختہ رخسار غضب ہے
میں اور کسی بات کا شاکی نہیں تجھ سے
یہ وقت کے اوپر ترا انکار غضب ہے
اب تک حرم وصل سے محرم نہ ہوئے ہم
کعبے میں حجاب در و دیوار غضب ہے
گر ایک غضب ہو تو کوئی اس کو اٹھاوے
رفتار غضب ہے تری گفتار غضب ہے
فرہاد بچا عشق سے نے قیس نہ وامق
جی لے ہی کے جاتا ہے یہ آزار غضب ہے
اے مصحفیؔ اس شوق سے ٹک بچ کے تو چلنا
سنتا ہے میاں وہ بت خوں خار غضب ہے
- کتاب : kulliyat-e-mas.hafii(awwa) (Pg. 387)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.