عذاب دل سے کبھی کرب جاں سے گزرے گا
عذاب دل سے کبھی کرب جاں سے گزرے گا
جو سچ کہے گا غم بے کراں سے گزرے گا
ابھی نہ بند کرو مقتلوں کے دروازے
ابھی اک اور مسیحا یہاں سے گزرے گا
چمن چمن میں کھڑے ہیں خزاں کے پہرے دار
جلوس فصل بہاراں کہاں سے گزرے گا
یہ انقلاب کا پہلو بھی کس نے سوچا تھا
خزاں کے بعد گلستاں خزاں سے گزرے گا
کوئی بھی فتنہ ہو یارو کہیں بھی برپا ہو
ہمارے شہر ہمارے مکاں سے گزرے گا
مقام سود و زیاں ہو کہ ارض دار و رسن
گزرنے والا ہر اک امتحاں سے گزرے گا
روش روش پہ سجا دو گلوں کی قندیلیں
کہ آج جان چمن گلستاں سے گزرے گا
جبین وقت کے تیور بتا رہے ہیں عزیزؔ
کہ فرد فرد ابھی امتحاں سے گزرے گا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.