عذاب رخت سفر سے خموش ہوتے ہوئے
عذاب رخت سفر سے خموش ہوتے ہوئے
کسی کو دیکھا ہے خانہ بدوش ہوتے ہوئے
اس آدمی کو فقط شوق باغبانی ہے
اداس ہوگا بہت گل فروش ہوتے ہوئے
درخت ایسے خد و خال میں ملا مجھ کو
سراپا زرد لگا سبز پوش ہوتے ہوئے
صدائے داد سخن بزم میں کچھ ایسی تھی
کہ لوگ چیخ رہے تھے خموش ہوتے ہوئے
بہت سے لوگ تو اب بھی ہیں گمرہی کے شکار
بھٹک رہے ہیں پیام سروش ہوتے ہوئے
بس اس کے ایک ہی جلوہ سے تم ہوئے بے ہوش
تمہیں بھی آ گیا غش اہل ہوش ہوتے ہوئے
سفر میں اب کے وہ زاد سفر رہا دلبرؔ
لگا نہ بار گراں بار دوش ہوتے ہوئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.