عذاب سا ہے دل نامراد پر کب سے
عذاب سا ہے دل نامراد پر کب سے
کھڑا ہوں میں روش گرد باد پر کب سے
کبھی ملو گے کہیں تو ملو گے جیتے جی
میں جی رہا ہوں اسی اعتماد پر کب سے
جو باڑھ آئی تو بے چارہ بہہ گیا خود ہی
جو بند باندھ رہا تھا فساد پر کب سے
وہ زندگی جو کبھی مڑ کے دیکھتی بھی نہیں
میں مر رہا ہوں اسی بد نہاد پر کب سے
مرے قلم پہ بھی شب خون پڑ گیا آخر
محاصرہ تھا مری جائیداد پر کب سے
میں روشنی کو بھلا دوں تو کیا تعجب ہے
برس رہا ہے دھواں میری یاد پر کب سے
مرے وجود میں کیا شاہکار ہے پنہاں
چڑھا رہا ہے زمانہ خراد پر کب سے
تمام شہر سماعت لرز اٹھا قیصرؔ
نکل پڑی ہے خموشی جہاد پر کب سے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.