ازل میں ہو نہ ہو یہ جلوہ گاہ روئے جاناں تھا
ازل میں ہو نہ ہو یہ جلوہ گاہ روئے جاناں تھا
کہ صبح حشر بھی خورشید کا آئینہ لرزاں تھا
جنوں کے سر پہ جب تک پنجۂ وحشت کا ساماں تھا
گریباں تھا ابھی دامن ابھی دامن گریباں تھا
خدا جانے قفس میں کیوں تڑپ کر مر گئی بلبل
یہ دیکھا ہے ابھی بجلی کا رخ سوئے گلستاں تھا
زمین و آسماں کی قید کیسی جوش وحشت میں
جہاں تک بھی نظر پہونچی بیاباں ہی بیاباں تھا
فلک پر ناز امڈتے تھے زمیں سے ناز ابلتے تھے
وہ عالم تھا عجب عالم کہ جب کوئی خراماں تھا
مرے دل کی طرح تھے چاک دونوں عشق کے ہاتھوں
زلیخا کا گریباں تھا کہ وہ یوسف کا داماں تھا
تن مردہ پہ خوف و شوق سے یہ روح کہتی ہے
یہی زنداں تھا گھر اپنا یہی گھر اپنا زنداں تھا
مرے جینے سے موت اچھی قسم ہے بے گناہی کی
وہی دل دے مجھے یا رب کہ جس میں شوق عصیاں تھا
پھری ہے جب کبھی تصویر آنکھوں میں قیامت کی
یہ دیکھا ہے کہ اپنے ہاتھ میں اپنا گریباں تھا
سیاہی شام فرقت کی سمٹ آئی تھی آنکھوں میں
کہ روز حشر نظروں میں مری شام غریباں تھا
لحد سے قید خانے کے بھی قیدی چھٹ گئے لیکن
نہ چھوٹے جس کے قیدی حشر میں بھی دل وہ زنداں تھا
مری نظروں میں اب تک ہے یہ دنیا ناز کی دنیا
ہوئی مدت کہ اک انداز سے کوئی خراماں تھا
وداع یار کی تجدید کے ارماں سے مرتے ہیں
وہی ساعت پھر آتی جس میں مر جانے کا ساماں تھا
کسی کو پیار آتا تھا کسی کو ہول آتے تھے
میں اک خواب پریشاں تھا میں اک زلف پریشاں تھا
ضرورت ایسے جلوے کو تھی بے شک ایسے مجمع کی
کھلا اب حشر کے وعدے میں جو کچھ راز پنہاں تھا
خیال و دل نگاہ و چشم کا عالم ہی دیکھا ہے
وہ ہر دم تھا مرے آغوش میں ہر دم گریزاں تھا
یہ کیفیت تھی ان آنکھوں کی بیخودؔ جوش مستی میں
گھٹائیں جھکتی اٹھتی تھیں برس پڑنے کا ساماں تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.