ازل سے جس سے رہے سارے بد گماں پتھر
ازل سے جس سے رہے سارے بد گماں پتھر
ہوئے ہیں اب اسی شیشے کے پاسباں پتھر
ہوا جو گل تو فراموش کر دیا اس کو
چراغ سا کبھی روشن تھا خاکداں پتھر
تراش کر جسے انمول کر دیا اس نے
سناتا ہے اسی تیشے کی داستاں پتھر
زمیں پہ اس کو نہ رکھنے کی شرط ٹھہری تھی
اٹھا نہ پایا کبھی رکھ دیا جہاں پتھر
طلوع ہوگا وہ اک روز میرے اندر سے
افق سے تا بہ افق ہے جو ضو فشاں پتھر
لہو سے تر تھا بدن پر گلہ نہ ہم نے کیا
یہی سبب کہ ہوئے مجھ سے بد گماں پتھر
جبین سادہ کو ساحلؔ جو اس نے دیکھ لیا
اسی گھڑی سے ہوا مجھ پہ مہرباں پتھر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.