ازل سے تا بہ ابد مثل آب خاموشی
سفر میں گم ہے یہ موج سراب خاموشی
نوا کی ظلمت سیل رواں سے نکلو تم
دیا جلاؤ کہ ہے بے حساب خاموشی
عجیب رونا سسکنا نواح جان میں تھا
پھر اس کے بعد ہوئی بے نقاب خاموشی
ہماری ذات کے اندر شعور ذات یہی
سمندروں کا یہی اضطراب خاموشی
میں اپنی صورت مبہم کو دیکھتا کیسے
کہ آئنہ میں ہوئی آفتاب خاموشی
نہ کوئی حرف تمنا نہ کوئی حرف وفا
حضور یار ہوئی باریاب خاموشی
خود اپنا علم و ہنر دیکھنے کو نکلے تھے
ہوئی ہے ہم کو مگر دستیاب خاموشی
ترے حروف بدن کو نہ پڑھ سکی دم بھر
بس اک جھلک میں ہوئی آب آب خاموشی
میان صحن چمن فصل خواب کا ماتم
چکا رہی ہے پرانا حساب خاموشی
اک انقلاب ہوا میں صدائیں دیتا ہے
زمیں میں چیخ رہی ہے جناب خاموشی
سہل نہ جان یہ غوغائے شور دل اجملؔ
پس نمود تمنا عذاب خاموشی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.