بنام عشق دل توڑا گیا ہے
بنا کر پھر مجھے ڈھایا گیا ہے
نصاب عشق میں شامل نہیں تھا
سبق جو تو مجھے سکھلا گیا ہے
ہمیں تو وصل میں بھی چین کب تھا
تمہیں تو ہجر بھی راس آ گیا ہے
جنوں بھی فلسفہ ہے عاشقی کا
مجھے اک نا سمجھ سمجھا گیا ہے
بڑی مشکل سے جچتی ہے کوئی شے
خدا کا شکر ہے تو بھا گیا ہے
میں تھا سلجھا ہوا معصوم لڑکا
لگا کر وہ گلے الجھا گیا ہے
میں اس کو بے وفا مانوں تو کیسے
نماز شب میں جو مانگا گیا ہے
مسافر خانہ ہے شاید مرا دل
وہ اپنے طور پر آیا گیا ہے
وہیں پہ منتظر ہوں مدتوں سے
مجھے وہ جس جگہ ٹھہرا گیا ہے
تم اس کے غم کا اندازہ لگاؤ
ندی کی سمت جو تنہا گیا ہے
اسے سوغات میں دے آیا ہستی
یہ جس دیوانے کا لاشہ گیا ہے
میں اس کو سارا پی جاؤں گا اک دن
کئی کشتی کو دریا کھا گیا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.